سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق گھر سے سفر کے لیے نکلو تو دو رکعت صلوٰة سفر پڑھو کہ یہ سفر کی سختیوں سے محفوظ رکھتی ہے اور بہ حفاظت منزل مقصود پر پہنچاتی ہے۔ میرے ایک دوست کا تعلق رحیم یار خان صوبہ پنجاب سے ہے۔ نماز سفر کی اہمیت کا واقعہ ان کی زبانی سنتے ہیں۔
میرا نام عبدالصمد خان ہے۔ مارچ 2003ءکی ایک خوشگوار رات مجھے کاروبار کے سلسلے میں ملتان جانا تھا۔ میں حسب معمول عشاءکی نماز کے بعد دو رکعت صلوٰة سفر ادا کرکے گھر سے نکلا۔ اسٹیشن پہنچا تو ٹرین جاچکی تھی۔ میرے پاس بریف کیس میں نقد رقم کے علاوہ کپڑے کا ایک جوڑا اور بزنس میٹریل تھا۔ میں نے بائی روڈ سفر کا فیصلہ کیا۔ اسٹیشن سے خانپور اڈا پر آیا۔ بس اسٹینڈ پر پہنچ کر پتہ چلا کہ ڈائریکٹ کوچ ملتان نہیں جاتی، بہاولپور سے تبدیل کرنا پڑے گی۔ مجبوراً اسی کوچ میں بیٹھ گیا۔ رات گیارہ بجے کا وقت ہوگا جب رحیم یار خان کو الوداع کہا۔ تقریباً 2 بجے رات بہاولپور بائی پاس پر آکر مجھے اور ایک دوسری سواری کو اتار دیا گیا۔ ہم نے بہت شور کیا کہ ہمیں اندر شہر اڈے پر پہنچاﺅ مگر ڈرائیور اورکنڈیکٹر نے جانوروں والا سلوک کرتے ہوئے ہمیں تقریباً دھکیل کر اتارا اور یہ جا وہ جا۔ ہم دونوں (دوسرے صاحب بھی میرے ساتھ ہی اترے تھے انہوں نے بھی ملتان جانا تھا) آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کچھ فاصلے پر بنے چھپر ہوٹل کی طرف بڑھے۔ ایک رکشہ ڈرائیور چادر اوڑھے لیٹا ہوا تھا ۔ ہم نے اسے بس اسٹینڈ چلنے کو کہا تو پہلے ڈرائیور نے انکار کردیا۔ ہم نے پیسوں کا لالچ دیا تو سو روپے میں تیار ہوگیا۔
اس جگہ سے بہاولپور لاری اڈے تک کا ابھی ہم نے 100 گز کا فاصلہ طے کیا تھا کہ سڑک کی دوسری طرف سے 5 نقاب پوش نکل کر سڑک کے درمیان آگئے۔ ایک نے رکشہ والے کو قابو کیا۔ دوسرے ہم دونوں سواریوں سے سارا سامان سنبھال کر ہمیں دھکے دیتے ہوئے نیچے کھیتوں میں لے آئے اور ہمیں خاموش رہنے کو کہا۔ میرے ہمسفر کو مجھ سے دور لے گئے پھر مجھے کپڑے اتارنے کو کہا اور اکڑوں بٹھادیا۔ میں دل ہی دل میں اللہ کو یاد کررہا تھا۔ میرے سر پر کھڑا نوجوان میرے موبائل سے اٹکھیلیاں کررہا تھا۔ اسی دن میں نے بہت شوق سے کیمرے والا موبائل خریدا تھا۔ وہ مجھے جان سے مارنا چاہتے تھے مگر میں نے ہاتھ بلند کرکے تعاون کا یقین دلا دیا تھا۔ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا میں جہاں تھا وہیں کھڑا رہا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ میرے سر پر کھڑا پہرے دار دیکھ رہا تھا، بولا ”قبلہ ادھر نہیں ہے دوسری طرف منہ کرو“۔ میں نے جھٹ سلام پھیرا اور کھڑے ہونے کی کوشش کی تو اس نے بندوق کھوپڑی سے لگادی۔ بولا بیٹھ جاﺅ بیٹھ کر پڑھو۔ میں نے سجدہ میں سر رکھا تو سجدہ طویل کردیا۔ اللہ سے دعا کی صلوٰة سفر کا واسطہ دیا کہ تیرے محبوب کی سنت پر عمل کرکے گھر سے چلا ہوں تو زندگی بخش دے۔ سلام پھیرا تو چار نوجوان میرے سر پر تھے۔ نقد رقم تقریباً 80 ہزار تھی۔ ایک نے ٹھڈے سے مجھے چھوتے ہوئے کہا اوئے اتنا مال لے کر کہاں جارہا تھا میں نے کہا ملتان۔ بولے اب تو اوپر جائےگا۔ میرے پسینے چھوٹ گئے۔ میں نے کہا بھائی میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں مجھے مارو مت۔ نوجوانوں نے پوچھا یہ نماز کون سی پڑھی ہے۔ میں نے کہا اپنے اللہ سے جان کی امان طلب کی ہے۔ آپس میں کھسر پھسر کے بعد انہوں نے میری شلوار واپس کردی۔ بولے ہاتھ سر پر رکھو اور واپس جاﺅ، تمہاری نماز کو دیکھتے ہوئے تم تینوں کی جان بخش رہے ہیں مگر پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا سیدھے رکشہ میں جاکر بیٹھ جاﺅ۔ میں نے تعمیل کی۔ رکشہ کے پاس آیا تو رکشہ والا کھڑا منہ سے خون صاف کررہا تھا۔ اسے بھی ظالموں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ میرے ساتھ کوچ سے اترنے والے صاحب کو شاید ضرورت سے زیادہ مارا تھا۔ وہ پیدل ہی اس طرف بھاگا جہاں کوچ نے ہمیں اتارا تھا۔ میں رکشہ والے کو لے کر تھانے آیا۔ ضروری پوچھ گچھ کے بعد ایس ایچ او میرے ساتھ موقع واردات پر آیا۔ جہاں سے میرے کپڑے وغیرہ مل گئے۔ ایس ایچ او نے کمال مہربانی کی۔ مجھے پرس سے ایک سو روپے نکال کردیئے۔ ایس ایچ اونے کہا عبدالصمد صاحب اللہ نے زندگی بھی دی اور عمر بھر کی معذوری سے بھی بچالیا ہے۔ اگر وہ ظالم چاہتے تو آپ کو ہمیشہ کے لیے معذور بھی کرسکتے تھے۔ یقینا یہ صلوٰة سفر ہی تھی جس کی بدولت اللہ نے میری زندگی محفوظ رکھی۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 524
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں